خاتون ڈاکٹر پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی ( Children Hospital Complex security lapse 15.6.26)

                                                                                                                             تحریر: ڈاکٹر طیب عارف بٹ          

(وائس پریزیڈنٹ، وائی ڈی اے پنجاب)

Journal Of Young Doctors Association, Pakistan

Chief Editor Dr Waqas Arshad



ہسپتالوں کی مقدس راہداریوں میں، جہاں روزانہ بے شمار جانیں بچائی جاتی ہیں، اب ایک افسوسناک تاریکی آہستہ آہستہ سرایت کر رہی ہے — ایسی تاریکی جو اُن مسیحاؤں کے خلاف ہے، جو انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے چلڈرن ہسپتال کمپلیکس میں پیش آنے والا ایک لرزہ خیز واقعہ اس خطرے کی واضح تصویر ہے جو ہمارے طبی ماہرین روزانہ نہ صرف بیماریوں بلکہ اُنہی افراد سے جھیلتے ہیں جن کی زندگی بچانے کا وہ عہد کرتے ہیں۔



ایک عام سی ڈیوٹی پر مامور خاتون ڈاکٹر پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب وہ دو بچوں کو طبی امداد فراہم کر رہی تھیں۔ دونوں بچوں نے نیند کا پورا پتہ ادھا ادھا بانٹ کر نگل لیا اور اور اس لاپرواہی کے باوجود ان کے والدین دوران علاج ڈاکٹر کی کوتاہیاں نوٹ کرنے میں مصروف تھے . ان بچوں کے لواحقین نے، نہ صرف خاتون ڈاکٹر پر حملہ کیا بلکہ نانی / دادی نے گلا گھونٹنے کی بھرپور کوشش کی اور اسی دوران ماں نے خاتون ڈاکٹر کے پیٹ پر شدید ضرب لگائ لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا، وہ غیر معمولی ہمت صدمے اور جسمانی تکلیف کے باوجود، وہ ڈاکٹر اپنی جگہ پر ڈٹی رہیں اور انہی بچوں کا علاج مکمل کیا جن کے اہل خانہ ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ محض ایک خبر نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے ان خاموش ہیروز کے حوصلے، استقلال اور پیشہ ورانہ جذبے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ خاتون ڈاکٹر اور اُن کے ہمکار اس لازوال قربانی اور خاموش بہادری کی نمائندگی کرتے ہیں جو ہر حقیقی معالج کے دل میں دھڑکتی ہے — ایسے حالات میں خدمات انجام دینا جہاں خطرہ ہر لمحہ موجود ہو اور شکرگزاری کا تصور ناپید ہو۔









یہ واقعہ ہسپتال کے عملے کے لیے ایک علامتی دن پر پیش آیا — وہ دن جب نوجوان ڈاکٹرز نئی امیدوں، جذبے اور قربانیوں کے ساتھ اس عظیم پیشے میں قدم رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ آغاز ہی سے انہیں نہ صرف طبی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ایک غیر محفوظ، پرتشدد ماحول سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ نوجوان خواتین ڈاکٹر نے نہایت وقار، حوصلے اور پیشہ ورانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، اور جسمانی تشدد کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ ان کی استقامت اُس جذبۂ خدمت کا آئینہ ہے جو اس مقدس پیشے کی روح ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) طویل عرصے سے ڈاکٹروں کے حقوق اور تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ بہتر حالاتِ کار، قانونی سیکیورٹی اور پیشہ ورانہ عزت کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کا یہ واقعہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں، بلکہ ایک جاری سلسلے کی کڑی ہے، جو فوری اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے۔ ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے کی نجکاری کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے — ایک ایسا اقدام جس سے عوام کے لیے علاج کی رسائی مزید محدود اور غیر مساوی ہونے کا اندیشہ ہے۔

لاہور میں ڈاکٹر سلمان حسیب چوہدری کی قیادت میں نوجوان ڈاکٹروں نے مال روڈ پر ایک پُرامن احتجاج کیا، جس میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ لیکن اس احتجاج کا جواب مکالمے سے نہیں بلکہ انتقامی اقدامات سے دیا گیا ملک کے ان پڑھے لکھے مگر نہتے بیٹے بیٹیوں پر نہ صرف ماڈل ٹاؤن کی طرز پر پولیس گردی کی گئی بلکہ انہیں ان کی انتقامی کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا. — درجنوں ڈاکٹروں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا، تادیبی کارروائیاں ہوئیں، اور حکومتی حلقوں کی خاموشی سب سے زیادہ افسوسناک رہی۔ آخر یہ پیغام اُن نوجوان ذہنوں تک کیا پہنچتا ہے جو اپنی زندگی طب کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ کہ قربانی شک کی نگاہ سے دیکھی جائے گی؟ کیا احتجاج جرم شمار ہو گا؟












پاکستان کے معالجین ستائش نہیں مانگتے — وہ صرف اپنے لیے تحفظ، عزتِ نفس اور مناسب سہولیات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ وہ ایک ایسے نظام کی خواہش رکھتے ہیں جو اُن کی انسانیت کو اتنی ہی اہمیت دے جتنی اُن کی مہارت کو۔ یہ حالیہ واقعات — الم ناک، غیر منصفانہ اور آنکھیں کھول دینے والے — ہمارے لیے ایک وارننگ ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر صرف سفید کوٹ پہنے ہوئے لوگ نہیں، بلکہ معاشرے کے خاموش مجاہد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو موت اور بیماری کے خلاف فرنٹ لائن پر ڈٹے ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ زخم بھی کھا رہے ہیں، نظر انداز بھی کیے جا رہے ہیں، اور خاموش بھی کرا دیے جاتے ہیں۔

ہم، بطور قوم، اُن کے مقروض ہیں۔

ہم ہر اُس ڈاکٹر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو خوف، صدمے اور خطرے کے باوجود، سفید کوٹ کو عزت سے زیبِ تن کرتا ہے۔ جو انتقام کی جگہ ہمدردی کو چنتا ہے۔ جو انسانیت کے لیے بار بار لوٹ کر آتا ہے — چاہے انسانیت نے اُسے کتنی ہی بار زخمی کیوں نہ کیا ہو۔ یہ صرف ایک تحریر نہ ہو، بلکہ ایک عملی مطالبہ ہو — محافظوں کی حفاظت کیجیے۔ شفا دینے والوں کا ساتھ دیجیے۔

اور یاد رکھیے: ہر اسٹیتھوسکوپ کے پیچھے ایک ایسا دل دھڑک رہا ہے جو خدمت، قربانی اور ناقابلِ شکست استقامت کا


Chief Editor Dr Waqas Arshad

استعارہ 
ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

"A Series Of Unfortunate Events"

ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

بدقسمت واقعات کا سلسلہ